گزشتہ دنوں شام میں جاری خانہ جنگی کا اختتام دیکھنے کو ملا۔ دنیا کےلیے یہ شاید ڈرامائی اختتام ہو لیکن اہل شام کےلیے یہ ڈرامائی اختتام ہرگز نہیں۔ یہ وقت اہل شام نے بہت سی قربانیوں، ظلم و تشدد سہہ کر حاصل کیا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ اختتام کسی اور خانہ جنگی کا آغاز نہ ہو۔ اللہ کرے کہ اس کے بعد دنیا امن کی جانب بڑھنا شروع ہو، وگرنہ اعداد و شمار کی بنیاد پر اگر دیکھا جائے تو دنیا عالمی جنگ کے مزید قریب پہنچ چکی ہے۔
شام کی 13 سالہ خانہ جنگی میں تقریباً دس لاکھ لوگ مارے گئے ہیں اور 24 ملین کی کل آبادی میں سے ساڑھے 14 ملین کی آبادی نے نقل مکانی کی اور بے گھر ہوئے تھے۔ اندازہ ہے کہ 2011 سے اب تک شام کی معیشت 60 سے 70 فیصد تک سکڑ بھی چکی ہے۔ شام کی کل معیشت اس وقت محض 6.2 ارب ڈالر ہے جس میں منشیات کی کمائی کا حصہ بھی شامل ہے۔
بشارالاسد نے جب 2000 میں اپنے والد سے اقتدار سنبھالا تھا تو وہ اقتدار کےلیے تیار نہیں تھا اور پہلے ہی بین الاقوامی طاقتوں کی کٹھ پتلی بن چکا تھا۔ اقتدار کےلیے حافظ الاسد کا دوسرا بیٹا تیار کیا جارہا تھا جس کی موت پراسرار حالات میں ہوئی اور واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس کو مروانے میں بشار کا کردار تھا اور بعد میں بشار نے حافظ الاسد کو بھی رخصت کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔
ابتدا میں بشار نے پرائیویٹ بینکنگ اور معیشت کےلیے لبرل پالیسی اپنائی تھی تاکہ جی سی سی کے سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کرسکے اور ساتھ میں لبنانی دولت بھی شام میں آسکے لیکن ایک دہائی کے بعد کے حالات نے اس ساری صورتحال کو یکسر پلٹ دیا اور شام میں سوویت یونین جیسی کمانڈ والا سسٹم چلنا شروع ہوگیا۔ یہ شامی معیشت کےلیے موت کا پیغام تھا۔
شام کی خانہ جنگی نے اُس کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچایا تھا، ایک جانب اس کا انفرااسٹرکچر برباد ہورہا تھا تو دوسری جانب مالیاتی معاملات بھی تیزی کے ساتھ بگڑ رہے تھے۔ معیشت ہمیشہ مضبوط ریاست اور بین الاقوامی تعاون سے پنپتی ہے۔ ریاست کو اپنے عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ بشارالاسد کےلیے اس کے عوام اس کے غلام تھے اور اگر کوئی سر اُٹھاتا تھا تو اس کو نشان عبرت بنادیا جاتا تھا۔ بشار کے اقتدار کے خاتمے کے بعد انٹرنیشنل میڈیا میں اس کے عقوبت خانوں کی ویڈیوز سنگ دل انسان کا دل بھی پگھلانے کےلیے کافی ہیں۔ لہٰذا ایسی صورتحال میں معیشت سسکنا شروع ہوگئی۔
بشارالاسد کا تختہ الٹنے والی جماعت کے سربراہ ابو محمد الجولانی کا ماضی القاعدہ سے جڑا ہوا ہے، اس لیے امریکا اور یورپ نے اُس کے سر کی قیمت 15 ملین ڈالر مختص کی ہوئی ہے۔ تاہم اب ابو محمد الجولانی شام کا اقتدار سنبھال چکے ہیں۔ فی الوقت شام کو ٹیکنوکریٹس کی حکومت درکار ہے۔ یہاں وارلارڈز کا نظام مزید کام خراب کرے گا۔ شام کو اس وقت ہمسائیوں کے علاوہ بھی بین الاقوامی تعاون درکار ہے۔ چونکہ شام میں جمہوری نظام کا تختہ نہیں الٹا ہے لہٰذا امریکا، برطانیہ اور یورپ کو شام کی مدد میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ایران اور روس کو البتہ اب زخم چاٹنے ہوں گے کیونکہ شام میں تختہ الٹا جانا اصل میں ان دو ممالک کی شکست ہے اور اسرائیل یقیناً ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔
شام کی معیشت تیل کی بنیاد پر نہیں ہے اور جہاں سے تیل پیدا ہوتا ہے وہاں پر ترک ملیشیا ایس ڈی ایف موجود ہے، جو کہ ترکیہ کی ملٹری کا بھی ٹارگٹ ہے۔ سول وار سے پہلے کے اعداد و شمار کے مطابق شام میں 4 لاکھ بیرل یومیہ تیل پیدا ہوتا ہے۔ یہ تیل اس کی تعمیر نو کےلیے ناکافی ہے اور اگر اس تیل تک کسی طرح سے رسائی ہو بھی جائے تو شام کو اپنی تعمیر نو کےلیے دیگر ذرائع کی جانب دیکھنا ہوگا۔ دوسری اہم بات کہ لبنان نے 2019 میں اپنا ڈیفالٹ ڈیکلیئر کردیا تھا لہٰذا اس کا وہ پرائیوٹ کیپیٹل فنڈ جو پہلے کسی طرح شام میں استعمال ہوتا تھا، اب دستیاب ہی نہیں ہوگا۔ یہ ایک لائف لائن مستقل قریب میں شام کو دستیاب نہیں ہوگی۔
ایک اور نقطہ جو مجھے لگتا ہے کہ انتہائی اہم ہے وہ فرانس کے صدر کا اسمبلی میں اپنا جلوس نکلوانا ہے۔ انہیں اسمبلی میں عدم اعتماد کا سامنا بھی ہے اور وہ شام کی کسی بھی قسم کی مدد سے قاصر ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ فرانس بھی اپنے ضرورت سے زیادہ عوامی قرضوں اور بجٹ خسارے کی وجہ سے یورپی یونین کے ساتھ سینگ پھنسا لے گا، لہٰذا شام کو اپنے ایک اور حلیف کی جانب سے صرف ہمدردی مل سکتی ہے، مالی تعاون نہیں مل سکتا ہے۔
ایسی صورتحال میں امریکہ کیا کرے گا؟ ٹرمپ شام کو ایک دلدل کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکا میں داعش کی باقیات کا مقابلہ کرنے کیلئے 3 ہزار فوجی موجود ہیں اور ٹرمپ ان کی ملک میں واپسی چاہتا ہے۔ ٹرمپ نے الیکشن میں واضح کیا تھا کہ میں دنیا بھر سے جنگیں ختم کروں گا اور اس کےلیے اپنے تمام تر اختیارات کا استعمال بھی کروں گا۔ اسی وجہ سے وہ مختلف ممالک کو ملنے والی امداد پر نظر ثانی بھی کرے گا اور جہاں ضروری ہوا، وہ انہیں ختم بھی کرے گا۔ اب اگر شام میں حکومت سازی امریکا کی مرضی سے نہیں ہوتی ہے تو امریکا شام پر سخت پابندیاں بھی لگائے گا اور اس کو بیل آؤٹ پیکیج بھی نہیں دے گا۔ اگر امریکا شام کو بیل آؤٹ نہیں دے گا تو شام کو کوئی اور مالیاتی ادارہ بھی بیل آؤٹ نہیں دے گا۔ لہٰذا یہاں پر حکومت تو امریکا کی مرضی سے تشکیل پائے گی اور ممکنات ہیں کہ فی الحال وہ ٹیکنوکریٹس اقتدار سنبھالیں گے جنہیں امریکا کی آشیرباد ملتی ہے اور اس سب کے بعد بھی شام کو جو امداد ملنے کی توقع ہے، وہ انتہائی قلیل اور ناکافی ہوگی۔
بشار الاسد کی عیاشیوں اور اپنی سیکیورٹی کے نام پر بنائے جانے والی پالیسیوں نے شامی کرنسی کی قدر میں خوفناک کمی کی ہے، جس کی وجہ سے شامی پاؤنڈ کو قدر میں شدید کمی کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ سے مہنگائی بھی بہت زیادہ ہے اور یہ مزید بڑھے گی۔ ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 28 ہزار شامی پاؤںڈز دستیاب ہیں۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کےلیے بھی شام کو ماہرین معیشت کی قابل ٹیم کی ضرورت ہوگی۔ شام میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ شامی فوجیوں کی تنخواہ اتنی تھی کہ وہ بمشکل تمام اپنے گھر والوں کو ایک وقت کا کھانا دے سکیں، لہٰذا جب تختہ الٹا جا رہا تھا تو کوئی خاص مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔
اس ساری صورتحال میں سب سے اہم کردار ترکیہ کا ہوگا۔ ترکی میں شامی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد رہتی رہی ہے جو کہ اب گھروں کو واپس لوٹ رہی ہے۔ جس دن بشارالاسد ترکی فرار ہوا تھا، اس دن استنبول میں ترکی کے اسٹیل، سیمنٹ اور تعمیراتی اسٹاک میں ڈبل فگر کا اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔ صرف ترکی کے اُس سیمنٹ کی قدر میں دس فیصدی اضافہ دیکھنے کو ملا تھا جس کی ملکیت ترکیہ آرمی پنشن فنڈ کے پاس ہے۔
فنانشل مارکیٹ کا خیال ہے کہ ترکیہ کے صدر اردگان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے شام کے پانچ اہم شہروں کی تعمیرنو میں اگر کردار ادا کردیں تو شام کےلیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہوگا اور لمحہ موجود میں یہ شام کےلیے سب سے بڑا ریلیف بھی ہوگا۔ یہ کام اگرچہ انتہائی مشکل ہوگا اور شاید ترکیہ کو اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے لیکن ترکیہ کو اپنی ہمسائیگی میں موجود اس بڑی ڈیولپمنٹ پر باامر مجبوری ہی سہی لیکن ایسا کرنا پڑے گا۔
شام سے ایک جانب مہاجرین واپس جارہے ہیں تو دوسری جانب ترکیہ اپنے پرائیوٹ سیکٹر اور ملٹری کی ملکیت میں موجود تعمیراتی کمپنیوں کو بھی شام میں تعمیر نو کےلیے متحرک کرے گا۔ شام کی 24 ملین کی آبادی کا 70 فیصد اس وقت خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور اگر آج فوری طور پر شام کو سنبھالا نہ گیا تو اس کے حالات عراق سے بدتر ہوسکتے ہیں، جو کسی بھی صورت میں ترکیہ کی معیشت کےلیے نیک شگون ثابت نہیں ہوں گے۔
یہ رپورٹس موجود ہیں کہ شام کے وہ دولتمند خاندان جو دہائی قبل بیرون ممالک میں شفٹ کرگئے تھے، وہ واپس آنے کےلیے تیار ہیں۔ تجارت شامیوں کی خاصیت ہے اور خلافت عثمانیہ میں ان تاجروں کی بہت اہمیت تھی اور ان کی ہی پالیسیوں نے ایک جانب خلافت کو سہارا دیا ہوا تھا اور دوسری جانب دمشق اور حلب کو عالمی معاشی حیثیت بھی حاصل ہوئی تھی ۔ اگر شام میں سلامتی بحال ہوجاتی ہے تو امید ہے کہ اربوں ڈالرز شامی خاندان اپنے ساتھ واپس شام لاسکتے ہیں جس سے معاشی پہیہ چلنا شروع ہوجائے گا۔ کووڈ، اس کے بعد روس اور یوکرین جنگ کے اثرات، 2023 کا خوفناک زلزلہ اور اب انقلاب نے شام کی معیشت کو ناقابل برداشت دباؤ کی جانب دھکیل دیا ہے۔
امید ہے کہ شام کے موجودہ انقلابی عالمی معیشت اور شام کی صورتحال کو سمجھتے ہوں گے، وہ بشار کی طرح مطلق العنان نہیں ہوں گے اور نہ ہی شام کو ایک نئی خانہ جنگی کی جانب دھکیل دیں گے۔ یہ بات طے ہے کہ شام کا نیا جنم عالمی طاقتوں کو آسانی سے ہضم نہیں ہوگا اور یہاں صرف شام ہی نہیں بلکہ ترکیہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کو نئے معاشی چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Leave a Reply